آنسوؤں میں جھلکتی تاریخ: فلم "ڈیڈ ٹو رائٹس” سے پیدا ہونے والا احساس

بیجنگ (ویب ڈیسک) حالیہ دنوں ، فلم "ڈیڈ ٹو رائٹس”کو پورے چین میں دکھایا جا رہا ہے ، جس نے ہمارے لئے تاریخ پر نظر ڈالنے کا ایک دریچہ کھول دیا ہے۔ 1937 میں نانجنگ قتل عام کے تاریخی واقعے پر مبنی یہ فلم عام لوگوں پر مرکوز ہے، جاپانی حملہ آوروں کے سامنے ان کے خوف، جدوجہد اور ہمت کو دکھاتی ہے، ناظرین کو ان ناقابل فراموش سالوں میں محو کر دیتی ہے، اور تاریخ اور امن کے بارے میں ہماری گہری غور و فکر کو بھی متحرک کرتی ہے۔سینما ہال میں بچوں کے رونے اور بڑوں کے آنسو ایک دلوں کو چھو لینے والا متاثر کن منظر پیش کرتے ہیں ، آنسو گالوں پر بہتے ہیں، ہر قطرہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس ناقابلِ فراموش ماضی کو یاد رکھیں۔

ہمارے آباؤ اجداد نے خون اور آنسوؤں سے جو تاریخ لکھی ہے ، وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والی انتباہی گھنٹی بن گئی ہے۔ یہ صرف ایک یاد نہیں، بلکہ ایک ورثہ ہے۔ تاریخ کو یاد رکھنا، قومی خفت کو نہ بھولنا، ہر چینی کو چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کے حصول کے لیے مسلسل کوشش کرنے پر ابھارتا ہے۔اس سال جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوام کی مزاحمتی جنگ اور عالمی فاشسٹ مخالف جنگ کی فتح کی 80 ویں سالگرہ ہے۔ ” 18ستمبر ” کے واقعے سے لے کر "7 جولائی ” کے واقعے” تک ، چینی عوام نے 14 سال تک خون ریز جنگ لڑی اور بالآخر فتح حاصل کی۔ 3 کروڑ 50 لاکھ فوجیوں اور شہریوں کا جانی نقصان، یہ وہ بھاری قیمت ہے جو چین نے قومی وقار کی حفاظت اور عالمی امن و انصاف کے لیے ادا کی۔

ہم اس دن کو صرف ماضی کی قربانیوں اور عظمت کو یاد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ تاریخ سے حکمت اور طاقت حاصل کرنے، انسانیت کے روشن مستقبل کی تشکیل کے لیے مناتے ہیں۔قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ آج کی دنیا تاریخ کو بھلانے کی پریشان کن صورتحال کا شکار ہے۔ مغربی ممالک کے تعلیمی نظام میں ایشیائی محاذ کی نظراندازی، کچھ سیاسی قوتوں کی جانب سے تاریخی حقائق کو دانستہ مسخ کرنا، یہ سب دوسری جنگِ عظیم کے بعد وجود میں آنے والے عالمی نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ جاپانی اسکالر کاٹو نے ایک بار متنبہ کیا تھا "جو قوم یادداشت سے محروم ہو، وہ ایک ایسے فرد کی مانند ہے جس کا کوئی ماضی نہ ہو، جو ایک صحت مند شناخت تشکیل نہیں دے سکتا۔” جب امریکی ہائی اسکول کے طلبہ نانجنگ قتل عام سے بالکل ناواقف ہوں، جب یورپی نوجوان دوسری جنگِ عظیم کو محض "ہٹلر کی کہانی” سمجھتے ہوں، تو انسانیت درحقیقت ایک اہم قوتِ مدافعت کھو رہی ہے جو ایسی المناکیوں کے دہرائے جانے کو روکتی ہے۔

اس لحاظ سے، فلم "ڈیڈ ٹو رائٹس” صرف چینیوں کے لیے تاریخ کا سبق نہیں، بلکہ دنیا کے لیے یادداشت کا دعوت نامہ بھی ہے ۔ یہ فن کے ذریعے عالمی ناظرین کو بتاتی ہے کہ تاریخ کو مشترکہ طور پر یاد رکھنا انسانی امن کی بنیادی شرط ہے۔دوسری جنگ عظیم کے اہم متاثرہ اور فاتح ممالک میں سے ایک کی حیثیت سے ، چین نے ہمیشہ تاریخ سے سیکھنے اور مشترکہ طور پر امن برقرار رکھنے کی وکالت کی ہے۔ چین کا انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کا تصور عالمی امن اور ترقی کے بارے میں ہماری گہری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی تاریخ کو یاد رکھنا چاہیے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ پوری انسانیت کے نقطہ نظر سے دوسری جنگ عظیم کی تاریخی سچائی کا مشترکہ طور پر تحفظ کیا جائے اور اس کو مسخ کرنے کی مخالفت کی جائے۔جاپانی جارحیت مخالف چینی عوامی مزاحمتی جنگ کی فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر جائزہ لیا جائے تو تاریخ کی روشن خیالی واضح ہو تی جا رہی ہے۔

امن تاریخ کی ناگزیر پیداوار نہیں ہے، بلکہ ایک بیش قیمت چیز ہے جسے ہر نسل کو احتیاط سے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے. چین جنگ کے ملبے سے اٹھا، لیکن انتقام یا توسیع کی پرانی راہ پر نہیں چلا۔ اس تہذیبی انتخاب کی خود ایک عالمی اہمیت ہے۔ فلسفی سارتر نے کہا تھا: "اہم یہ نہیں کہ ماضی میں کیا ہوا، بلکہ یہ ہے کہ ہم ماضی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔جب ” ڈیڈ ٹو رائٹس ” کا اختتامی گانا گونجتا ہے اور ناظرین آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ سنیما گھر سے باہر نکلتے ہیں، تو وہ صرف تاریخ کی یاد ہی نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے ایک ذمہ داری بھی ساتھ لے جاتے ہیں ، روشنی کی حفاظت کے لئے اندھیرے کو یاد رکھیں۔ جنگ کی طرف مڑ کر دیکھنے کا مطلب امن کو فروغ دینا ہے۔وہ آنسو جو بچوں کے گالوں پر بہتے ہیں، آخرکار قومی یادداشت کی وسیع ندی میں شامل ہو جائیں گے اور مستقبل کو سیراب کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس پر آشوب دنیا میں، وہی قوم جو تاریخ پر آنسو بہا سکے، وہی انسانیت کے لیے ایک مختلف کل لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment