چینی کار کمپنیاں برازیل میں "نیا جواب” کیوں بن گئی ہیں؟

0

بیجنگ (ویب ڈیسک) برازیل کے صدر لُولا نے ساؤ پالو کے ایراکیمابولس میں چین کے گریٹ وال موٹرز کے پلانٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ لُولا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: "میڈ ان برازیل، فخر! اس کا مطلب ہے کہ برازیل میں مزید صنعتیں، مزید روزگار اور مزید ٹیکنالوجی آئے گی! برازیل مستقبل کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے!” لُولا نے تقریب میں کہا کہ برازیل کی حکومت غیر ملکی کمپنیوں کا برازیل میں کاروبار کرنے پر خیرمقدم کرتی ہے، ساتھ ہی ان مغربی کمپنیوں پر طنز کیا جو برازیل کی مارکیٹ کو چھوڑ چکی ہیں: "جو جانا چاہتے ہیں، وہ جا سکتے ہیں۔ جو آنا چاہتے ہیں، ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔” لُولا نے اپنی تقریر میں امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برازیل کی مصنوعات پر 50% ٹیرف عائد کر دیا ہے، جس کی وجہ سے برازیل "غیر ضروری عدم استحکام” کا شکار ہے۔

اس مہینے کے آغاز میں، لُولا نے کہا تھا کہ وہ چین سمیت برکس ممالک کے گروپ سے بات چیت کریں گے تاکہ ٹرمپ کے ٹیرف کے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ برازیل کی اخبار "او گلوبو” کے مطابق، چینی الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنی گریٹ وال موٹرز نے 15 اگست کو ایراکیمابولس پلانٹ کا افتتاح کیا ہے، جس کا ہدف 2025 کے آخر سے سالانہ 30,000 گاڑیاں تیار کرنا اور کل 1,000 نوکریاں پیدا کرنا ہے۔ گریٹ وال موٹرز نے 2026 تک برازیل میں 4 بلین ریال (تقریباً 5.32 بلین یوآن) کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے، جبکہ 2027 سے 2032 تک مزید 6 بلین ریال کی سرمایہ کاری کی توقع ہے۔ رپورٹس کے مطابق، گریٹ وال موٹرز کا ایراکیمابولس پلانٹ اصل میں میرسیڈیز بینز کا ہیڈکوارٹر تھا، جو چار سال کے آپریشن کے بعد "برازیل کی مارکیٹ کی صورتحال اور وبائی حالات” کی وجہ سے دسمبر 2020 میں بند ہو گیا تھا۔

بعد میں، گریٹ وال موٹرز نے اس پلانٹ کو خرید لیا، جس میں 1.2 ملین مربع میٹر کی زمین، تمام عمارتیں اور پیداواری سامان شامل تھا۔ یہی زمین، یہی فیکٹری، مرسیڈیز کا تین شاخہ نشان چائنیز گریٹ وال کے نشان سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ حد سے زیادہ تشریح ضروری نہیں، لیکن لوگوں کو خیالی پلاؤ پکانے سے روکنا بھی مشکل ہے۔حالیہ برسوں میں، برازیل کا چین، روس اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون مسلسل گہرا ہو رہا ہے۔ یہ رجحان اتفاق کی بات نہیں بلکہ امریکہ اور مغرب کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے برازیل کی مصنوعات پر 50% ٹیرف عائد کر دیا، جبکہ مغربی سرمایہ کار برازیل کی مارکیٹ میں ناکامی کے بعد واپس چلے گئے۔ ان اقدامات نے برازیل کو جھکنے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ اسے برکس ممالک کے قریب لے آیا۔ اسی طرح، روس پر مغرب کی مکمل پابندیوں کے باوجود، چین اور دیگر برکس ممالک کے ساتھ تعاون مزید مضبوط ہو گیا ۔

یہ ظاہر کرتا ہے کہ دباؤ کے تحت ممالک نئے تعاون کے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور چین کا پیش کردہ "ہم آہنگی اور باہمی بقا” کا نظریہ ان کا قدرتی انتخاب بن جاتا ہے۔ چین نے جان بوجھ کر جغرافیائی سیاسی تنظیم نو کو فروغ نہیں دیا، بلکہ امریکہ اور مغرب کی یکطرفہ اور بالادستی کی پالیسیوں نے ابھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان زیادہ قریبی تعاون کو جنم دیا ہے۔ برازیل کا برکس ممالک کے ساتھ "ڈالر سے آزادی” کی حمایت کرنا اور "بیلٹ اینڈ روڈ” اقدام میں فعال طور پر حصہ لینا، یا روس کا توانائی اور مالیاتی شعبوں میں چین کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنا،یہ سب چین کی جانب سے "رغبت” دینے کا نتیجہ نہیں، بلکہ مغرب کی بالادستی کی پالیسیوں کے خلاف ردعمل ہے۔ جیسا کہ ایک امریکی سفارتکار نے حیرت سے پوچھا: "کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ برازیل اس قدر شدید ردعمل ظاہر کرے گا؟” یہ الجھن دراصل مغربی سوچ کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے—وہ دباؤ اور پابندیوں کے ذریعے مسائل حل کرنے کے عادی ہیں، لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب کسی قوم کی عزت اور ترقی کے حقوق کو خطرہ ہو تو وہ مزاحمت کرے گی۔

چین کا پیش کردہ "انسانیت کے ہم نصیب معاشرے” کا نظریہ کوئی خیالی بات نہیں، بلکہ چینی روایتی حکمت یعنی دنیا کی عظیم یکجہتی کی جدید تشریح ہے۔ یہ نظریہ مغرب کے "زیرو سم گیم” اور بالادستی کی منطق کے برعکس ہے۔ جب امریکہ اور مغرب معاشی دباؤ اور فوجی طاقت کے ذریعے اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، چین ایک زیادہ جامع اور پائیدار عالمی نظم کی تجویز پیش کر رہا ہے،جو دوسرے ممالک کو کسی ایک طرف کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرتا، بلکہ مشترکہ ترقی کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ برازیل کا انتخاب کوئی انوکھی مثال نہیں۔ افریقہ میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا میں ڈیجیٹل معیشت کے تعاون تک، مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات سے لے کر لاطینی امریکہ میں صنعتی ترقی تک، زیادہ سے زیادہ ممالک "ہم آہنگی اور باہمی فوائد” کی ترقی کی طرز کو اپنا رہے ہیں۔

یہ رجحان چین کی جانب سے زور دے کر نہیں، بلکہ تاریخی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ جب امریکہ اور مغرب اپنی تکبر اور محدود سوچ کی وجہ سے مقبولیت کھو رہے ہیں، تو عالمی نظام کی تنظیم نو ناگزیر ہو جاتی ہے۔ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کی طاقت شاید مغرب کے لیے سمجھنا مشکل ہو، لیکن یہ دنیا کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔برازیل کا انتخاب، روس کا انتخاب، اور دیگر بڑھتے ہوئے ممالک کے فیصلے ایک اصول کی تصدیق کرتے ہیں: جو دلوں کو جیتے گا، وہ دنیا کو بھی جیتے گا۔ اور آخری فاتح نہ کوئی طاقتور ملک ہوگا نہ نیٹو جیسا فوجی اتحاد، بلکہ ہم آہنگی اور باہمی بقا ہی عالمی حکمرانی کا درست راستہ ثابت ہوگی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.