بیجنگ (ویب ڈیسک)چین کی ریاستی کونسل کے دفتر اطلاعات کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ 2024 کے لئے امریکہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ نے ایک گرج کی طرح ان لوگوں کودوبارہ بیدار کیا ہے جو اب بھی "امریکی طرز کے انسانی حقوق” کے افسانے کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ حتمی اعداد و شمار اور افسوس ناک واقعات کے ساتھ، یہ رپورٹ دنیا کے سامنے امریکہ کی خود ساختہ کہانیوں سے بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہے: اجالے میں، یہ اب خود کو عظیم کہلانے والا "انسانی حقوق کا منصف” نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا "مجرم” ہے جس کا انسانی حقوق کا ریکارڈ نہایت خراب ہے۔اس "ریکارڈ” کو غور سے دیکھتے ہوئے پہلی چیز جو آتی ہے، وہ اس کی زوال پذیر بنیاد ہے۔ 2024 ء کے امریکی انتخابات میں 15.9 بلین ڈالر سے زیادہ کے اخراجات "امریکی طرز جمہوریت” کی سیاسی نوعیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ سیاست اب رائے عامہ کی آرائش نہیں رہی، بلکہ سرمائے کے ہاتھوں ہیرا پھیری میں ملوث جوئے بازی کا مرکز بن چکی ہے، اور امریکی سیاست میں "اشرافیہ کی ہیرا پھیری” معمول بن چکی ہے۔
انتخابی اضلاع کومفاد پرست ٹولوں کی طرف سے سوچ سمجھ کردوبارہ ترتیب دیا گیا ہے، ووٹرز کو دبانے کے بل سامنے آتے رہتے ہیں اوراقلیتوں اور کم آمدنی والے لوگوں کے رائے شماری کے حقوق کو منظم طریقے سے سبوتاژ کیا گیا ہے۔ جب انتخابات کو "دو خراب سیبوں میں سے ایک کے انتخاب” میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، تو عوام کی مایوسی سیاسی اعتماد کے خاتمے کا ایک فطری ردعمل ہے۔جمہوریت کی ناکامی براہ راست لوگوں کے ذریعہ معاش کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ 40 ملین سے زیادہ امریکی غربت کا شکار ہیں، 13.8 ملین بچوں کو تین وقت کا کھانا نہیں مل رہا ہے، اور بے گھر افراد کی تعداد ریکارڈ 770000 تک پہنچ چکی ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لئے امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے جولائی 2024 میں سڑکوں پر سونے والے بے گھر افراد کے لئے جرمانے ، گرفتاریوں یا قید کے حق میں جو فیصلہ سنایا گیا تھا ، اس سے یہ تاثر ملا ہے جیسے غربت اصل گناہ تھا۔
مہنگے اور ناکارہ صحت کے نظام نے بے شمار لوگوں کو امراض کی وجہ سے غریب بنا دیا ہے، منشیات کے استعمال کا بحران ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ جانیں لے رہا ہے، بار بار فائرنگ کے واقعات نے تعلیمی و سماجی مراکز کو ماضی کے محفوظ ماحول سے محروم کر دیا ہے، اور پولیس کے تشدد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خوف کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ "امریکی خواب” ظالمانہ حقائق کے سامنے بکھر رہا ہے۔اس سے بھی زیادہ گھٹن کی بات یہ ہے کہ حقوق سے محرومی یکساں طور پر منقسم نہیں ہے بلکہ نسل اور جنس کی بنیاد پر مزید ابتری کا شکار ہے، جس سے منظم جبر جنم لیتا ہے۔ سفید فام افراد کے مقابلے میں افریقی نژاد امریکیوں کو پولیس کے ہاتھوں گولی لگنے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ پیرول کے بغیر عمر قید کی سزا پانے والے تمام بچوں میں سے 61 فیصد افریقی نژاد تھے۔ کم ازکم 3104 بچوں کی باقیات آدیواسی بورڈنگ اسکولوں میں دفن ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے نیشنل پول سینٹر کی جانب سے چینی نژاد امریکیوں کی حالت کے بارے میں 2024 کے سروے کے مطابق، 68 فیصد چینی جواب دہندگان کو ہر ماہ اوسطاً کم از کم ایک قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
امریکہ اقوام متحدہ میں واحد ملک ہے جس نے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے اور قانون نافذ کرنے والے نظام کے اندر بچوں کے جنسی استحصال پر پردہ ڈالنا اور بھی خوفناک ہے۔اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف امریکہ نے اندرون ملک انسانی حقوق کی صورت حال کو خراب ہونے دیا ہے، جبکہ دوسری طرف اس نے انسانی حقوق کو بالادستی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا تیز کر دیا ہے۔ غزہ کے مسئلے میں اس نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قراردادوں کو سات مرتبہ ویٹو کیا اور "نسل کشی” میں معاون کے طور پر کام کیا۔ کیوبا پر 60 سال سے زائد عرصے سے ناکہ بندی کی گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں افرادغربت کے شکار رہے۔ دیگر ممالک میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے دوران جنسی حملوں اور ماحولیاتی آلودگی کے اسکینڈلز اکثر سامنے آتے رہتے ہیں اور گوانتانامو میں تشدد کا نظام اب بھی جاری ہے۔
بین الاقوامی قوانین اوردوسرے ممالک کے انسانی حقوق کو نظر انداز کرنا، اپنے گھریلو انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کے بالکل برعکس، امریکہ کا انسانی حقوق سے متعلق بیانیہ اس کی منافقانہ نوعیت کو مکمل طور پر بے نقاب کرتا ہے ۔ انسانی حقوق ، اس کی نظر میں کاربند اصولوں کے بجائے دوسروں کو مارنے والی لاٹھی سے زیادہ کچھ نہیں۔یہ "انسانی حقوق کی ریاکاری ” ختم ہو چکی ہے۔ پیسوں کی سیاست، سماجی تقسیم، نسلی امتیاز، لوگوں کے معاش کی مشکلات، بالادستی ، ہرایک نقاب کے نیچے ایسے امریکی انسانی حقوق کے وہ زخم ہیں جنہیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ امریکہ اب بھی دوسرے ممالک پر انگلیاں اٹھا رہا ہے، لیکن اُسے خود ہی اپنے ہاں مسائل کا فوری طور پر جائزہ لینے اور اس سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ نقاب کتنی ہی دیر تک پہنا جا سکتا ہے ، آخر کار حقائق کے سامنے یہ اُٹھ جائے گا ۔ کیا امریکہ اسی دھن پر رقص جاری رکھنے کے قابل رہ سکتا ہے؟